میں گلہ کر رہا ہوں قسمت کا
میں گلہ کر رہا ہوں قسمت کا
کون موقع ہے یہ شکایت کا
تھا اثر دل میں کچھ محبت کا
پوچھتے تھے نشان تربت کا
بدرؔ وارفتہ ہو کے حضرت کا
کس سے ہے ادعا رقابت کا
ڈر نہ تھا دل میں کچھ قیامت کا
تھا بھروسا تری شفاعت کا
جل اٹھا دل میں داغ حسرت کا
بجھ گیا جب چراغ تربت کا
سن کے واعظ کی پی گئے مے کش
مقتضا تھا یہی شرافت کا
عرق آلودہ رخ کا وصف لکھا
عطر کھینچا گل لطافت کا
شب فرقت تھی رات تربت کی
روز فرقت تھا دن قیامت کا
نہیں ملتا ادا شناسوں کو
تولا ماشہ مزاج حضرت کا
زندگی کا بھی ٹھیکا لیتے ہو
وعدہ کرتے تو ہو قیامت کا
واہ رے حسن تیری رعنائی
رنگ بدلا حیا طبیعت کا
نہ تو مے ہے نہ جام و ساقی ہے
رنگ پھیکا ہے آج صحبت کا
شب گیسو سے بھی دراز ہے یہ
طول کیا کہئے روز فرقت کا
رتی سیم قمر کی چمکی ہے
اوج دیکھو تو اہل دولت کا
پست سے پست زینہ ہے کرسی
آپ کے بام عرش رفعت کا
کس غضب کی ہے سانولی صورت
شور عالم میں ہے ملاحت کا
بے حقیقت یہ خاک کا پتلا
اک نمونہ ہے تیری صنعت کا
آج کیا ہوں ازل سے پروانہ
میں تری شمع بزم قربت کا
دشت غربت میں میرے سر پر تھا
سائباں تیری نیلگوں چھت کا
بدرؔ تم بھی تو ہو بنی ہاشم
فخر بے جا نہیں سیادت کا
بدرؔ مرحوم کو خدا بخشے
آدمی تھا بڑی مروت کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.