میں گزر رہا تھا بہشت سے کھلے راستوں کا طلسم تھا
میں گزر رہا تھا بہشت سے کھلے راستوں کا طلسم تھا
مجھے یاد ہے مرے خواب میں ترے موسموں کا طلسم تھا
وہ سیاہ رات کی داستاں کوئی پیڑ ہو تو کروں بیاں
مری شاخ دل پہ رواں دواں ترے جگنوؤں کا طلسم تھا
وہ اداس بیلوں کے سائے تھے مری آنکھ میں جو سمائے تھے
جو گلی گلی میں مہک تھی وہ کھلے آنگنوں کا طلسم تھا
کبھی دوپہر کے جنون سے میں جو بچ کے سویا سکون سے
مرے جسم پر ترے گاؤں کے گھنے پیپلوں کا طلسم تھا
جو چہار سو کئی پھول تھے وہ رفاقتوں کے رسول تھے
مری ذات پر مرے مہرباں تری خوشبوؤں کا طلسم تھا
گھنے شیشموں کے سرور میں میں گھرا ہوا تھا طیور میں
مرے آس پاس پہاڑ تھے دھلی وادیوں کا طلسم تھا
کھلے پانیوں کی جبین کا میں کوی تھا اپنی زمین کا
مری شاعری کے جزیرے پر ہری بستیوں کا طلسم تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.