میں جس کی کھوج میں صدیوں سے گھر نہیں آیا
میں جس کی کھوج میں صدیوں سے گھر نہیں آیا
مرا وجود اسی کو نظر نہیں آیا
وہ بار بار اسی راستے سے گزرا ہے
یہ اور بات کبھی میرے گھر نہیں آیا
میں جس کی چھاؤں میں کچھ دیر رک کے سستا لوں
رہ حیات میں ایسا شجر نہیں آیا
یہ اتفاق ہے جس نے ملا دیا ورنہ
میں اس طرف تری آواز پر نہیں آیا
یہ کیسی راہ وفا جس میں نہ الزام نہ سنگ
کوئی عذاب ابھی میرے سر نہیں آیا
دوا کی شکل ابھی درد سے نہیں ملتی
ابھی شباب پہ زخم جگر نہیں آیا
یہ کیسی رات ہے یا رب کہ ایک مدت سے
نظر کے سامنے وقت سحر نہیں آیا
تمام رات ستارے بجھے بجھے سے رہے
مگر گھٹا سے نکل کر قمر نہیں آیا
شکیلؔ دیکھ تو جا کے کیوں اس کی جانب سے
بہت دنوں سے کوئی نامہ بر نہیں آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.