میں کھل رہی ہوں خزاں میں عجب سزا ہے مجھے
میں کھل رہی ہوں خزاں میں عجب سزا ہے مجھے
نجانے کون سے موسم کی بد دعا ہے مجھے
اے میری جان کے دشمن تو اب ملا ہے مجھے
فراز نے جو لکھا تھا وہی گلہ ہے مجھے
جو خواب آنکھ کے سب سے قریب رہتا تھا
وہ زندگی سے بہت دور لے گیا ہے مجھے
وہ شخص جس نے مرے دل کو تار تار کیا
سوائے اس کے کہاں کوئی آسرا ہے مجھے
ترا فراق مری شاعری کی خوشبو ہے
ترا یہ غم ہی مرے درد کی دوا ہے مجھے
میں اپنی پلکوں پہ جس کو سجائے رکھتی تھی
وہ خواب ٹوٹ کے آنکھوں میں چبھ گیا ہے مجھے
برا سمجھ ہی لیا ہے تو پھر تکلف کیا
برا ہی کہتے رہو یہ بھی کیا برا ہے مجھے
یہ ڈر ستانے لگا ہے کہ کھو نہ دوں تم کو
ترا یہ کہنا مرے دل پہ آ لگا ہے مجھے
یہ سوچتی ہوں سبھی کچھ لٹا دیا کس پر
میں اب تلک ہوں تہی دست کیا ملا ہے مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.