میں خود ہی عشق میں مجبور ہوں وفا کے لئے
میں خود ہی عشق میں مجبور ہوں وفا کے لئے
خدا کا واسطہ مجھ کو نہ دے خدا کے لئے
نہ عام کر تو مذاق جفا خدا کے لئے
یہ دل بہت ہے ترے جور ناروا کے لئے
تھی ناگزیر فنا عالم بقا کے لئے
اک انتہا بھی ضروری تھی ابتدا کے لئے
مجھے دعاؤں سے اپنی نہیں امید اثر
مگر ہنوز میں آمادہ ہوں دعا کے لئے
انہیں کو مانگ لوں ان سے جو وہ اجازت دیں
میں انتظار میں ہوں اذن التجا کے لئے
مجاز اور حقیقت ہیں سد راہ جمال
یہ سب فریب ہیں چشم حق آشنا کے لئے
شمیم زلف تری اس کو مل گئی شاید
سکون آج میسر نہیں صبا کے لئے
چمن ہے وہ ہیں بہاریں ہیں اور فرصت ہے
اب انتظار ہے گھنگھور اک گھٹا کے لئے
وفا کی کوششیں فکر وصال رنج فراق
بڑے عذاب ہیں اک جان مبتلا کے لئے
جہان عشق مکمل نہیں ہوا اب تک
مکاں اجڑ گئے لاکھوں اسی بنا کے لئے
شکست عہد غم ہجر انتظار سحر
دوا کہاں ہے مرے درد لا دوا کے لئے
یہ دل ہے پہلے بھی دل ہی تھا لیکن اب اے دوست
بنا دیا اسے پتھر تری جفا کے لئے
یہ ذوق سیر مرا یہ تباہیٔ طوفاں
میں اک وبال ہوں اے موجؔ ناخدا کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.