میں خوش بہت ہوں مجھ کو فقیری جو راس ہے
میں خوش بہت ہوں مجھ کو فقیری جو راس ہے
ورنہ امیر شہر بہت بد حواس ہے
کتنی عظیم تر مرے ہونٹوں کی پیاس ہے
جو لفظ ہے ترائی کا اب اس کے پاس ہے
کس نے گلاب رنگ شفق میں ملا دیا
ہر پھول کے بدن پہ سنہری لباس ہے
کچھ اس لئے سفر پہ سفر کر رہا ہوں میں
ناآشنا حیات کو کچھ مجھ سے آس ہے
اچھا تو یہ تھا کچھ بھی نہ ہوتا سفر میں ساتھ
تھک اس لئے گیا ہوں کہ سامان پاس ہے
آنکھوں کی نیند سے بھی سبک دوش کر گیا
تنہائیوں میں کون مرا غم شناس ہے
اک کشمکش سی رہتی ہے سچ اور فریب میں
وہ دور ہے ضرور مگر آس پاس ہے
باندھا ہوا ہے خود کو سبھی نے حصار میں
غم بانٹنے کا وقت یہاں کس کے پاس ہے
کل جو سمجھ کے چھوڑ گیا تھا شکستہ پا
منزل پہ آج دیکھ کے مجھ کو اداس ہے
اب تک کی زندگی میں تو سمجھا ہے بس یہی
دنیا ہے اک فریب نظر اک قیاس ہے
ناشرؔ کسی سے کرتا نہیں ہے شکایتیں
شاید یہی سبب ہے زباں میں مٹھاس ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.