میں موج موج ہوں میری بساط دریا ہے
میں موج موج ہوں میری بساط دریا ہے
مرا قبیلہ سمندر ہے ذات دریا ہے
نہ وہم ہے نہ گماں ہے نہ خواب ہے نہ خیال
میں چل رہا ہوں مرے ساتھ ساتھ دریا ہے
کوئی تو ہوگا سبب تشنہ لب ہوں میں ورنہ
برہنہ تیغ ہے اور چند ہاتھ دریا ہے
بنا لے اور بھی کاغذ کی کشتیاں بیٹی
ابھی تو ہوں گے کئی حادثات دریا ہے
خدا خدا نہ پکارے گا نا خدا کب تک
بھنور ہے تاک میں کینہ صفات دریا ہے
جو شخص ڈوب رہا ہے اسے بھی غور سے سن
گہر ہے اس کا ہر اک لفظ بات دریا ہے
نہ باندھ رخت سفر پہلے سوچ لے خسروؔ
شکستہ ناؤ اندھیری ہے رات دریا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.