میں نہ اک ساعت رہا آرام میں
میں نہ اک ساعت رہا آرام میں
گر قفس سے چھوٹ آیا دام میں
سب پہ بالا ہی رہی بولی مری
میں جو پہنچا حسن کے نیلام میں
تل تہ گیسو نہیں صیاد نے
آج دانہ رکھ دیا ہے دام میں
حضرت دل نے کیے جرم و خطا
بے سبب ہم آ گئے الزام میں
عازم ملک عدم ہے اے مسیح
تیرا بیمار اب تو صبح و شام میں
زلف چھو کر ہم نے لی سر پر بلا
آئے ناحق کشمکش کے دام میں
چشم و لب کے بوسے میں جو ہے مزہ
وہ کہاں ہے پستہ و بادام میں
ان کے گھر جاتا ہوں کہہ دیتے ہیں یہ
کوئی کہہ دو وہ تو ہیں آرام میں
چاٹتے ہیں ہونٹھ سب عاشق ترے
ہے عجب لذت ترے دشنام میں
زلف و رخ کا ہے تصور رات دن
جب سے ہم داخل ہوئے اس لام میں
مرغ بسمل ہیں جو یہ صیاد آج
تو نے کیا خنجرؔ رکھا ہے دام میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.