میں نہ ترسوں گا کبھی ساقی جو ترسانے لگے
میں نہ ترسوں گا کبھی ساقی جو ترسانے لگے
ہاتھ کے چھالے بھی مجھ کو اب تو پیمانے لگے
ترک پینا مے کیا اوروں کے غم کھانے لگے
کیف بخش اب ہاتھ کے چھالے کے پیمانے لگے
کل تر و تازہ تھے گلشن میں جو چہروں کے گلاب
دھوپ میں فکروں کی آج آئے تو مرجھانے لگے
دل کا چھالا زخم کی صورت نہ کر لے اختیار
حال پر اب میرے اپنے رحم فرمانے لگے
کل کا سورج امن کا پیغام لائے یا خدا
شام آئی پھر گھروں میں لوگ گھبرانے لگے
آج یہ محفل میں کس نے دی الٹ رخ سے نقاب
روشنی بڑھنے لگی اور دیپ شرمانے لگے
قوم پھر پائے گی شاداںؔ خواب غفلت سے نجات
رفتہ رفتہ ہوش میں دیوانے اب آنے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.