میں نہیں کہتی مجھے کوئی خزانہ چاہیئے
میں نہیں کہتی مجھے کوئی خزانہ چاہیئے
التجا اتنی ہے الفت جاودانہ چاہیئے
عیش و عشرت کے بنا بھی کام چل سکتا ہے جی
چھت تو سب کو چاہیئے اور آب و دانا چاہیئے
عشق میرا جس میں مہکے اے مرے رب کریم
مجھ کو جنت سے الگ وہ آشیانا چاہیئے
اس شکایت کو مری تو دور کر سکتا ہے کیا
وقت تیرا چاہیئے اور والہانہ چاہیئے
رب کو پانے کی جو حسرت ہے تو اس کے واسطے
دل نظر اور بے نیازی عارفانہ چاہیئے
ہم سفر مانگا تھا میں نے غم دئے تو نے مجھے
اب طلب یہ ہے کے غم کا اک زمانہ چاہیئے
دل نظر کیا روح تک رنگ تصوف چھا گیا
اب غزل بھی مجھ کو مولیٰ صوفیانہ چاہیئے
ہجر تیرا دے ہی دے گا موت اک دن سپناؔ کو
زندگی جینے کا لیکن اک بہانہ چاہیئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.