میں نے آغوش تصور میں تمہیں کیا دیکھا
میں نے آغوش تصور میں تمہیں کیا دیکھا
جگنو چمکا تو میں سمجھا ید بیضا دیکھا
منکشف جب سبب پرسش اعمال ہوا
حشر کو جلوہ گہہ وعدۂ فردا دیکھا
میں نے ہر ماہ دوہفتہ کو بہ وقت پیری
جلوۂ صبح میں کھویا ہوا تارا دیکھا
لے کر انگڑائی اٹھی جب نگہ حسن طلب
ذرے ذرے میں انہیں انجمن آرا دیکھا
آج بھی بیٹھے ہوئے ہیں وہ پس پردۂ حشر
دیکھا اے منتظر وعدۂ فردا دیکھا
میرے نالے ادب آگاہ محبت نہ سہی
آپ نے زخم جگر کیوں بہ تقاضا دیکھا
جب ہوا انجمن گل میں ورود شبنم
مرتسم دل پہ ترا نقش کف پا دیکھا
نبض پر ہاتھ نظر سوئے فلک مہر بلب
چارہ گر خیر تو ہے کچھ تو بتا کیا دیکھا
فیضؔ کیا کیا دل امیں گاہ تصور نہ ہوا
میں نے جب پہلوئے مہتاب میں تارا دیکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.