میں نے کس شوق سے اک عمر غزل خوانی کی
میں نے کس شوق سے اک عمر غزل خوانی کی
کتنی گہری ہیں لکیریں میری پیشانی کی
وقت ہے میرے تعاقب میں چھپا لے مجھ کو
جوئے کم آب قسم تجھ کو ترے پانی کی
یوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر
جیسے زنجیر چھنک اٹھتی ہے زندانی کی
اجنبی سے نظر آئے ترے چہرے کے نقوش
جب ترے حسن پہ میں نے نظر ثانی کی
مجھ سے کہتا ہے کوئی آپ پریشان نہ ہوں
مری زلفوں کو تو عادت ہے پریشانی کی
زندگی کیا ہے طلسمات کی وادی کا سفر
پھر بھی فرصت نہیں ملتی مجھے حیرانی کی
وہ بھی تھے ذکر بھی تھا رنگ غزل کا شبنمؔ
پھر تو میں نے سر محفل وہ گل افشانی کی
- کتاب : Beesveen Sadi Ki Behtareen Ishqiya Ghazlen (Pg. 128)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.