میں نے لاکھ دیکھے ستم مگر یہ ترا ستم تو عجیب ہے
میں نے لاکھ دیکھے ستم مگر یہ ترا ستم تو عجیب ہے
کبھی پاس ہو کے بھی دور ہے کبھی دور ہو کے قریب ہے
میں بگڑ گیا تری اک نظر سے وگرنہ مجھ کو تو دیکھ کر
یہ گلی کی عورتیں بولتیں اسے دیکھو کیسا نجیب ہے
تو ہو سامنے تو بھی بے خودی نہ ہو سامنے تو بھی دل جلے
مرے کس گنہ کی سزا یہ دی کہ طپیدگی ہی نصیب ہے
ترے سحر کا میں شکار ہو کے ترے قریب جو آ گیا
تو پتہ چلا یہ مجھے کہ تجھ سے جو دور ہے وہ لبیب ہے
یہ دعا بھی ہے کہ نہ وصل ہو یہ دعا بھی ہے کہ نہ ہجر ہو
مرے مرض دل کا سبب ہے تو مرے دل کا تو ہی طبیب ہے
کبھی بے رخ اتنا کہ خار ہو کبھی ملتفت تو نثار ہو
تری یہ ادا بھی حبیب ہے تری وہ ادا بھی حبیب ہے
یہ زمانہ اہل زمانہ سب مجھے بھول جائیں گلہ نہیں
تو نہ بھولنا کہ معاذؔ بھی ترے میکدے کا رقیب ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.