میں نے تری بستی کے یہ دیکھے ہیں نظارے
میں نے تری بستی کے یہ دیکھے ہیں نظارے
مہوے کے درختوں سے ٹپکتے ہیں ستارے
رہنے دے اسی طرح فلک کے یہ نظارے
دامن پہ چھٹک یوں کہ بکھر جائیں ستارے
موجوں کی روانی میں تجھے دیکھ رہا ہوں
بیٹھا ہوں بڑی دیر سے دریا کے کنارے
بڑھ جائے گی دو چار برس اور مری عمر
دو چار گھڑی تو جو مرے ساتھ گزارے
تم کیسے سپیرے ہو نہ منتر ہے نہ تریاق
جھولی میں لیے پھرتے ہو سانپوں کے پٹارے
ہم توڑ چکے ہیں جسے بے کار سمجھ کر
دیوار کھڑی تھی انہیں اینٹوں کے سہارے
اتنا تو بتانا کہ نمازی بھی کوئی ہے
اونچے ہیں ترے گاؤں کی مسجد کے منارے
اللہ بھی رزاق ہے بندہ بھی سخی ہے
مر جاتے ہیں عرفانؔ بہت بھوک کے مارے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.