میں رہا شیر و شکر تلخیٔ ایام کے ساتھ
میں رہا شیر و شکر تلخیٔ ایام کے ساتھ
زندگی میں نے گزاری بڑے آرام کے ساتھ
تمکنت بھی ہے کچھ اس میں تو یہ خوددار بھی ہے
چل سکے گا نہ مرا دل روش عام کے ساتھ
اب نہ شکوے کی جگہ ہے نہ شکایت کا مقام
بن گئے خود وہ تماشا مرے انجام کے ساتھ
آج کی شام سنا ہے وہ ادھر آئیں گے
اب قیامت نہ چلی آئے کہیں شام کے ساتھ
غیر پیتے ہیں شب و روز ترے ہاتھوں سے
یہ خلش اور بھی ہے تشنگیٔ جام کے ساتھ
جاگ اٹھتی ہے کبھی اور کبھی سو جاتی ہے
زندگی کھیل رہی ہے سحر و شام کے ساتھ
یہ بھی شاید ترا اعجازؔ ستم رانی ہے
دل کو واپس بھی کیا تو نے تو انعام کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.