میں شاید کھیلنے کھانے لگا ہوں
میں شاید کھیلنے کھانے لگا ہوں
یہ لطف زیست جو پانے لگا ہوں
میں رسم و راہ و انداز وفا کو
کوئی آئینہ دکھلانے لگا ہوں
حقیقت کچھ نہیں دنیا جہاں کی
حقیقت خود کو سمجھانے لگا ہوں
ابھی ہیں مرحلے خوشیوں کے باقی
یہ کہہ کر دل کو بہلانے لگا ہوں
گریزاں اشک برسانے سے آنکھیں
مگر میں خون برسانے لگا ہوں
ابھی منجدھار میں اتری نہ نیا
ابھی لہروں سے گھبرانے لگا ہوں
نہ سلجھا مجھ سے کوئی ایک لمحہ
طناب زیست سلجھانے لگا ہوں
بھلا ہو زندگی کے حادثوں کا
عجب لطف قضا پانے لگا ہوں
لگا کر موت کو سینے سے اپنے
مجھے لگتا ہے گھر جانے لگا ہوں
مبارک رونقیں دنیا کی تم کو
خدا حافظ کہ میں جانے لگا ہوں
وہ جس نے زخم دل بہتر دئے ہیں
اسی کے زخم سہلانے لگا ہوں
برا ہو روشنی تیری انا کا
سیاہی سے بھی گھبرانے لگا ہوں
بڑا اوبا ہوا ہوں سر خوشی سے
خیالؔ اب غم کے سرہانے لگا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.