میں شہری ہوں مگر میری بیابانی نہیں جاتی
میں شہری ہوں مگر میری بیابانی نہیں جاتی
جنوں کچھ بھی پہن لے اس کی عریانی نہیں جاتی
نہیں کچھ اور ہوگا وہ محبت تو نہیں ہوگی
کہ اتنی روشنی اتنی بہ آسانی نہیں جاتی
کھلے ہیں سارے دروازے ہمارے قید خانے کے
کہ دروازے تلک زنجیر زندانی نہیں جاتی
بتوں کو دیکھتے ہی ہوک سی اک دل میں اٹھتی ہے
دل مومن سے یاد کفر سامانی نہیں جاتی
اٹھا لاتا ہوں میں بازار سے روز اک نئی آفت
مرے گھر سے بلائے ساز و سامانی نہیں جاتی
ازل کا داغ ہجر اتنا ہمارے دل پہ روشن ہے
کہ اپنی وصل کی عرضی کہیں مانی نہیں جاتی
میں کب کا اس کی حد دید سے باہر نکل آیا
مگر اس کی طرف سے میری نگرانی نہیں جاتی
تمام اعصاب پر طاری ہے نثری نظم دنیا کی
مگر احساسؔ صاحب کی غزل خوانی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.