میں شرمسار ہوں اپنے ضمیر کے آگے
میں شرمسار ہوں اپنے ضمیر کے آگے
کہ ہاتھ خالی تھا میرا فقیر کے آگے
مرا یقین تھا حد گمان کے اندر
کبھی بھی سوچا نہیں ہے لکیر کے آگے
کوئی تو جذبہ تھا مہجور کے خیالوں میں
پگھل رہی تھیں سلاسل اسیر کے آگے
چراغ سحری تھا لیکن عجیب روشن تھا
چمک رہا تھا وہ ماہ منیر کے آگے
میں کیسے اس کے لکھے پر یقین کر لیتا
قلم بھی گروی تھا جس کا امیر کے آگے
ہر ایک شخص تھا کمزور و ناتواں ساحلؔ
بدن دریدہ تھا ہر اک شریر کے آگے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 552)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.