میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو
میں سوچتا رہتا ہوں دماغوں میں نہیں جو
ہے کون سا وہ پھول کہ باغوں میں نہیں جو
ہوتی ہے کسی دیدۂ نمناک کی لو سے
وہ روشنی کیسی ہے چراغوں میں نہیں جو
دیکھو نہ مرا جسم مری روح جلی تھی
یہ داغ ہے وہ جلد کے داغوں میں نہیں جو
پانی میں زمینوں پہ ہوا میں اسے کھوجا
وہ کیسا نشاں ہے کہ سراغوں میں نہیں جو
اک کار مسلسل ہے اسے چاہتے رہنا
لطف اس کا لگاتار ہے ناغوں میں نہیں جو
اس محفل احباب کی سرشاری عجب ہے
وہ مے بھی چھلک جائے ایاغوں میں نہیں جو
رنگت ہی نہیں آب و ہوا کا بھی اثر ہے
بگلوں میں کوئی بات ہے زاغوں میں نہیں جو
ناصرؔ ہیں عجب بولیاں طاؤس زماں کی
اشجار کے پر غول کلاغوں میں نہیں جو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.