میں تو زہر غم بھی پی کر جی لیا
میں تو زہر غم بھی پی کر جی لیا
دہر میں سقراط کا چرچا ہوا
جان دے کر ان کو پایا ہے مگر
پھر بھی یہ سودا بہت سستا ہوا
بولتی آنکھیں تبسم زیر لب
چہرۂ گلفام شرمایا ہوا
حسن نے چپکے سے عنواں لکھ دیا
عشق کا مشہور افسانہ ہوا
آبروئے حسن آنکھیں خشک ہیں
ابر غم بھی ہے مگر برسا ہوا
مست و شاداں مطمئن غربت میں ہے
جیسے دلدل میں کنول ہنستا ہوا
مل کے جی سلطانؔ سے خوش ہو گیا
آدمی معقول ہے سلجھا ہوا
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 339)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.