میں اس سے بچھڑا تو پھر کس قدر اکیلی تھی
میں اس سے بچھڑا تو پھر کس قدر اکیلی تھی
وہ چاندنی جو کبھی میرے ساتھ کھیلی تھی
کبھی کبھی بڑی شدت سے یاد آتی ہے
وہ نیند جو مری آنکھوں کی اک سہیلی تھی
قدم قدم پہ تھے جنگل میں سائبان بہت
مگر وہ چلتی ہوئی دھوپ جو اکیلی تھی
جہاں سے میں یہ خراشیں سجا کے لایا ہوں
مرے پڑوس میں پھولوں کی اک حویلی تھی
بدل گئے تھے لکیروں کے زاویے ورنہ
وہی تھا ہاتھ ہمارا وہی ہتھیلی تھی
بھلا دیا اسے منزل کے پاس سورج نے
مسافتوں کی کڑی دھوپ جس نے جھیلی تھی
ہمارے بارے میں آئینہ سوچتا ہی رہا
ہماری شکل میں شاید کوئی پہیلی تھی
ہمارے گاؤں کا نقشہ بدل گیا ورنہ
جہاں ببول ہے پہلے وہاں چنبیلی تھی
کھلی ہوئی ہے وہ اے بدرؔ ایک جنگل میں
مرے وجود نے جو چاندنی انڈیلی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.