میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
حسن کی لائٹ سے میری آنکھ چندھیا جائے ہے
جب سے بیوٹی پارلر سے ہو کے آیا وہ حسیں
سانپ کی مانند اس کی زلف بل کھا جائے ہے
آدمی کی جب نظر میں قدر کھو دے آدمی
بکرے کے بدلے میں اس کا سر بھی جھٹکا جائے ہے
وہ جو آ جائیں مری میت پہ رونے کے لئے
خود بخود میرا کفن چہرے سے سرکا جائے ہے
میٹ کھانے کا انہیں پکنک میں بھی چسکہ ہے کیا
کار کے بونٹ پہ بیٹھا ساتھ مرغا جائے ہے
رنگ کھل جائے ہیں ان کے گال پر ہولی کے دن
پینٹ کالا بھی اگر ہو رخ پہ کھلتا جائے ہے
ہے نگر میں آدمی کا ڈنگروں کا سا چلن
ہر سڑک کے کھمبے سے وہ پیٹھ کھجلا جائے ہے
کس بھروسے لیڈری کا دم بھروں میں آج کل
خاص چمچہ تھا جو میرا وہ بھی کترا جائے ہے
تیز سانسیں چل رہی ہوں حسن کی گرمی سے جب
اچھے اچھے عاشقوں کا دم بھی گھٹتا جائے ہے
تھان پر خچر کے میں نے اونٹ باندھا تھا جو کل
رنگ اس پر وہ چڑھا کہ ہنہناتا جائے ہے
یہ سلیقہ خوب دیکھا رازؔ نے کل بزم میں
جو نہ پیتا ہو اسی پر جام ڈالا جائے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.