میں یہ نہیں کہتی کہ مجھے یاد کیا کر
میں یہ نہیں کہتی کہ مجھے یاد کیا کر
چپ چاپ برستی ہوئی بارش کو سنا کر
دستک مرے دروازے پہ مت ایسے دیا کر
سو بار کہا ہے کہ ہوا دھیرے چلا کر
کہتا ہے یہ آئینہ مجھے نظریں چرا کر
نم دیدہ مجھے دیکھ کے مت ایسے ہنسا کر
ہو جائے نہ کچھ اور اداسی میں اضافہ
تو خود سے مری مان ذرا کم ہی ملا کر
سرگوشی نہ کر ایسے ہوا کان میں میرے
تو لہجے میں اس کے نہ مرا نام لیا کر
جاری ہو مرے سینے میں سانسوں کا تسلسل
رکھ ہاتھ مرے ٹھہرے ہوئے قلب پہ آ کر
پھر دل میں ترے نام کی پڑتی ہیں دھمالیں
ہوتی ہے مری روح بھی خوش خاک اڑا کر
گھونگھٹ کبھی چہرے سے اٹھاتے ہی نہیں ہو
ملتے ہو کہیں سارے حجابات اٹھا کر
کرتا ہے وہ پھر رقص سر بزم مسلسل
رکھ دیتے ہو ذی ہوش کو دیوانہ بنا کر
سورج کو بجھا دیتے ہو تم شام سے پہلے
اور دل سے یہ کہتے ہو کہ دن رات جلا کر
لگتا ہے کبھی دور بہت دور ہو مجھ سے
لگتا ہے کہ چھو لوں گی کبھی ہاتھ بڑھا کر
میں چادر تطہیر کا دیتی ہوں وسیلہ
رکھ لینا مرے عیبوں کو دنیا سے چھپا کر
اوقات بھی مٹی ہے تری ذات بھی مٹی
تو خاک ہے مت خاک پہ اترا کے چلا کر
آئے گا بھلا کون ترے پیچھے اے پاگل
مت راہوں میں جیناؔ تو ٹھٹھک کر یوں رکا کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.