میں یوں حیات کی وادیٔ پر خطر میں رہا
میں یوں حیات کی وادیٔ پر خطر میں رہا
چراغ جیسے کوئی آندھیوں کے گھر میں رہا
تمام خوف و تحیر کے بام و در میں رہا
میں اجنبی کی طرح خود ہی اپنے گھر میں رہا
نہ کچھ دوا میں نہ کچھ دست چارہ گر میں رہا
نظر کے زخم کا مرہم اسی نظر میں رہا
حصار ذات سے باہر کبھی نکل نہ سکا
مثال آب گہر میں سدا گہر میں رہا
پسند آیا نہ دامان ریگ زار کرم
میں اشک بن کے بھی اپنی ہی چشم تر میں رہا
میں اس کی دوست نوازی سے خوب واقف ہوں
ازل سے وقت کے ہم راہ میں سفر میں رہا
نہ دشمنی نہ عداوت نہ دوستی نہ خلوص
سوائے سود و زیاں کیا ہے اب بشر میں رہا
نہ جانے کون سی منزل کی جستجو ہے مجھے
ہمیشہ پائے طلب میرا رہ گزر میں رہا
اسی سے گلشن ہستی مہک اٹھا ہے شفیقؔ
جو خار مرگ ازل سے دل بشر میں رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.