میں زندگی کے ہزاروں عذاب جھیل گیا
میں زندگی کے ہزاروں عذاب جھیل گیا
عذاب کیا ہیں میں کتنے ہی خواب جھیل گیا
یہ پیاس دھوپ سفر دشت اور میں تنہا
غنیم وقت کا اک اک حساب جھیل گیا
میں اپنے آپ سے مل کر بہت پشیماں ہوں
بچھڑتے رہنے کا پیہم عذاب جھیل گیا
افق افق وہ مگر مہر و مہ اچھالے ہے
میں زخم زخم کئی آفتاب جھیل گیا
وہ اک صدا تھی کہ صدیوں کی گونج تھی مجھ میں
اس ایک لمحہ میں کیا انقلاب جھیل گیا
اکھڑ ہی جائے گا اب سائبان روز و شب
شمیمؔ بوجھ تو زور طناب جھیل گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.