مکان دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا
مکان دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا
بجھی جو آتش جاں زیست کا نشاں بھی گیا
بہت پناہ تھی اس گھر کی چھت کے سائے میں
وہاں سے نکلے تو پھر سر سے آسماں بھی گیا
بڑھا کچھ اور تجسس جلا کچھ اور بھی ذہن
حقیقتوں کے تعاقب میں میں جہاں بھی گیا
رہے نہ ساتھ جو پچھتاوے بھی تو رنج ہوا
کہ حاصل سفر عمر رائیگاں بھی گیا
بچے ہوئے تھے تو ایک ایک لمحہ گنتے تھے
بکھر گئے تو پھر اندازۂ زماں بھی گیا
نشان تک نہ رہا اپنے غرق ہونے کا
دکھائی دیتا تھا جو اب وہ بادباں بھی گیا
بھرا تھا دامن خواہش تو حشر برپا تھا
ہوا تہی تو پھر آوازۂ سگاں بھی گیا
اب اس اداس حویلی سے اپنا کیا رشتہ
مکیں کے ساتھ ہمارے لیے مکاں بھی گیا
بساط دہر پہ شہ مات ہو گئی ہم کو
ریاضؔ وہ بھی نہ ہاتھ آیا نقد جاں بھی گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.