مکیں نہیں تھے کہیں بھی لیکن نشان اونچے پہاڑ پر تھے
مکیں نہیں تھے کہیں بھی لیکن نشان اونچے پہاڑ پر تھے
وہ لوگ جانے کہاں تھے جن کے مکان اونچے پہاڑ پر تھے
سفید کرنیں دمک رہی تھیں سریلے جھرنوں کے پانیوں پر
نشیلے موسم میں دف بجاتے جوان اونچے پہاڑ پر تھے
قدیم لوگوں کی داستاں ہر چٹان مجھ کو سنا رہی تھی
پرانی راہوں میں کچھ فسردہ جہان اونچے پہاڑ پر تھے
کسی پرندے تلک رسائی نہیں تھی میری فغاں کی شاید
میں پستیوں میں تھا اور مرے ہم زبان اونچے پہاڑ پر تھے
بدل گئی تھی فضا مگر دل اسی تخیل کی قید میں تھا
وہی توہم تھے شہر میں جو گمان اونچے پہاڑ پر تھے
تمام دنیا یہ کہہ رہی تھی انہیں افق سے لگن تھی راشدؔ
کسی پری کے سراغ میں جو ہر آن اونچے پہاڑ پر تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.