مکینوں کو ترستا ہر مکاں ہے
مکینوں کو ترستا ہر مکاں ہے
مگر اب شہر میں امن و اماں ہے
لٹی کیوں دن دہاڑے گھر کی پونجی
جو اس گھر کا محافظ تھا کہاں ہے
فسانے گڑھ رہا ہے جھوٹ ان کا
مگر میری صداقت بے زباں ہے
سنے بھی وہ تو کب باور کرے گا
میں جو کچھ کہہ رہا ہوں رائیگاں ہے
مرے پیروں تلے جلتی زمینیں
مرے سر پر دھوئیں کا سائباں ہے
میں تیر انداز سمجھا جا رہا ہوں
مرے ہاتھوں میں اک ٹوٹی کماں ہے
مری آنکھوں میں اک مسمار مسجد
مرے کانوں میں اک زخمی اذاں ہے
مری نیندوں پہ سائے قاتلوں کے
مرے خوابوں میں مقتل کا سماں ہے
ہواؤں پر جو لکھی جا رہی ہے
مری بربادیوں کی داستاں ہے
کرے پرسش مریض جاں بہ لب کی
مسیحا کو مگر فرصت کہاں ہے
سنا ہے میں نے خود کو دوسروں سے
مرا قصہ حدیث دیگراں ہے
ابھی ہم سرخ رو ہیں خود سے مخمورؔ
کہ آئینوں میں سیل خوں رواں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.