منا کر جشن اپنی بے بسی کا
منا کر جشن اپنی بے بسی کا
اڑاتا ہوں تمسخر زندگی کا
لہو کی چھینٹ ہر دیوار پر تھی
لگا الزام پھر بھی خودکشی کا
خدا سب کو بناتے جا رہے ہو
تماشہ کر رہے ہو بندگی کا
مری صف سے جو آگے کی صفیں ہیں
نمایاں فاصلہ ہے مفلسی کا
چلا کر پیٹھ پر خنجر یہ کس نے
کیا ہے نام رسوا دشمنی کا
نہ جانے راہ کے جو پیچ و خم کو
اسے عہدہ ملا ہے رہبری کا
چلو مہتاب لے آئیں کہیں سے
بڑھا جاتا ہے سایا تیرگی کا
وہ دولت علم کی ارقمؔ ہے جس کو
کبھی خدشہ نہیں ہے رہزنی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.