منظروں کی بھیڑ تھی کوئی پس منظر نہ تھا
منظروں کی بھیڑ تھی کوئی پس منظر نہ تھا
کاروان وقت پہلے ایسا بے محور نہ تھا
اک صدائے بے صدا کی گونج تھی چاروں طرف
صرف سائے رینگتے تھے کوئی بھی پیکر نہ تھا
کون دے الزام کس پر روشنی کے قتل کا
بڑھنے والی ظلمتوں کے ہاتھ میں خنجر نہ تھا
تھی ہواؤں کی وہ سازش یا تقاضا وقت کا
برہنہ تھے پیڑ سارے کوئی برگ تر نہ تھا
اپنی فطرت ہی ازل سے صورت سیماب تھی
میں رواں تھا مثل دریا گھاٹ کا پتھر نہ تھا
بارش سنگ ملامت یوں تو ہر جانب سے تھی
سر بلند اپنی انا تھی مجھ کو فکر سر نہ تھا
طے ہوا کچھ اس طرح صحرائے ہستی کا سفر
جیسے اپنے سر پہ جوہرؔ گنبد بے در نہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.