منزل دکھا کے راہروی سونپ دی گئی
منزل دکھا کے راہروی سونپ دی گئی
یعنی کہ غم ملا کے خوشی سونپ دی گئی
بنتا ہی جا رہا تھا انا کا سوال وہ
اچھا ہوا جو اس کی کمی سونپ دی گئی
بعد از فراق اور ہی منظر عیاں ہوئے
آنسو پئے تو خوب ہنسی سونپ دی گئی
دنیا کو میرے دل سے چراغاں کیا گیا
حد ہے مجھی کو تیرہ شبی سونپ دی گئی
اے یار دیکھ وہ تو بڑے خوش نصیب تھے
جن کی نظر کو دید تری سونپ دی گئی
میرے جنوں کو دے کے سفر کوہ قاف کا
اک اور شخص کو وہ پری سونپ دی گئی
یہ دوریوں کی بات تو بچوں سی بات تھی
جوں ہی جوان ہو کے پلی سونپ دی گئی
درد شب فراق سدا ان کی خیر ہو
جن کو پلا کے تشنہ لبی سونپ دی گئی
ہم لوگ جو بڑوں کے مخالف تھے اس لیے
بے فیض دور جھوٹی صدی سونپ دی گئی
نا ممکنات میں تھی کوئی چاہت نہاں
پڑھنے لگا جو ناد علی سونپ دی گئی
میری حیات جیسے کسی تھل کی گرمیاں
اس بے وفا کو سیر مری سونپ دی گئی
اعجازؔ کل دراز سے نکلے کئی خطوط
راحت سی ایک درد بھری سونپ دی گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.