منزل ہے دور کوچ کا سامان کیجیے
دشوار ہے سفر اسے آسان کیجیے
یہ عقل کی ہے بات اسے مان لیجیے
جینا ہے تو سماج سے پیمان کیجیے
کسب کمال فن کا ہے یہ اولیں چلن
ہر آن اپنے آپ کو قربان کیجیے
ارشاد ہے یہ غالب دانائے راز کا
پندار کا صنم کدہ ویران کیجیے
میرا جنوں ہی کوئے ملامت کی جان ہے
میرے فسون شوق کو پہچان لیجیے
رنگ ملال کو نہیں کیف نشاط کو
افسانۂ حیات کا عنوان کیجیے
شاید گداز عشق سے ہو جائے آشنا
ناصح کی نذر میرؔ کا دیوان کیجیے
کہتی ہے رمز و راز سے اس کی نگاہ ناز
مجھ پر نثار مذہب و ایمان کیجیے
آہنگ و رنگ کفر ہے اس کی متاع شوق
اردو کو بخشئے نہ مسلمان کیجیے
خوئے وفا میں ہو وہ عزیمت کا بانکپن
رسم جفا سے ان کو پشیمان کیجیے
دنیا دنی ہے ہر سگ دنیا کے سامنے
کیوں اپنے سوز عشق کا اعلان کیجیے
انساں کی ہست و بود کا ہے اور کیا جواز
اپنی نمود سے اسے حیران کیجیے
طرفہ ستم اگر کہ ہو شیطان حکمراں
ہے مصلحت کہ طاعت شیطان کیجیے
ہم معنیٔ ستم ہے یہ تمکیں نما کرم
احساں نہ کیجیے یہی احسان کیجیے
کیا مرد بے نیاز کو اعزاز کی ہوس
میرے لیے نہ دل کو پریشان کیجیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.