منزل پہ پہنچنے کو تاروں پہ نظر رکھتے
منزل پہ پہنچنے کو تاروں پہ نظر رکھتے
جب شہر بسایا تھا رستوں کی خبر رکھتے
کہتے ہو اندھیرا ہے کوئی نہیں چہرہ ہے
ایمان یقیں ہوتا آنکھوں میں سحر رکھتے
الزام تراشی سے اب کچھ بھی نہیں حاصل
جب آئے غنیم اندر لڑنے کا ہنر رکھتے
اس قحط رجالاں میں قائد بھی نہیں ملتے
جو قافلۂ دل کو مائل بہ سفر رکھتے
ہم خاک کے ذروں کی صورت میں پریشاں ہیں
طاقت کو جمع کرتے تو برق و شرر رکھتے
ہم سب سگ مایہ ہیں ہڈی پہ جھپٹتے ہیں
ایسے میں کسی پر کیا اب خاک اثر رکھتے
صحرا کی تپش ہر سو کرگس کا بسیرا ہے
ہر شے جو جلا دی ہے کچھ باقی شجر رکھتے
اک مرگ مسلسل ہے افکار ہیں یخ بستہ
صحرا کی حرارت کو شعلوں سا جگر رکھتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.