مقام نور ہو کر رہ گیا ہے
مقام نور ہو کر رہ گیا ہے
وہ ہم سے دور ہو کر رہ گیا ہے
چراغ دل بجھا تو تن بدن میں
دھواں محصور ہو کر رہ گیا ہے
خودی میں بے خودی کو چھو لیا تھا
نشہ کافور ہو کر رہ گیا ہے
ہوا گھیرے ہوئے ہے طاق شب کو
دیا معذور ہو کر رہ گیا ہے
جو تارہ خاک سے ہونا تھا ظاہر
وہی مستور ہو کر رہ گیا ہے
یہ دل حد سے گزرنا چاہتا تھا
مگر مجبور ہو کر رہ گیا ہے
مرا غم تیری تاریخ کرم میں
فقط مذکور ہو کر رہ گیا ہے
انہی ہاتھوں سے بننا اور مٹنا
یہی دستور ہو کر رہ گیا ہے
- کتاب : Tasteer (Pg. 294)
- اشاعت : Issue No. 9,10 July/August. 1999
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.