مقتل میں اپنی موت کا ارماں لئے ہوئے
مقتل میں اپنی موت کا ارماں لئے ہوئے
ہم جا رہے ہیں زیست کا ساماں لئے ہوئے
آتا ہے کوئی درد کا درماں لئے ہوئے
اے بخت جاگ گردش دوراں لئے ہوئے
اے وقت آج پھر سے انہیں تار تار کر
بیٹھے ہیں ہم بھی جیب و گریباں لئے ہوئے
نکلے ہیں اشک ضبط کے دامن کو چیر کر
پہلو میں اپنے شورش طوفاں لئے ہوئے
بجھ جائیں پھر نہ گور غریباں کے یہ چراغ
خوف ہوا سے ہیں تہ داماں لئے ہوئے
جاتا ہے کیا حریف سوئے کوئے دوست پھر
دام ہوس میں دانۂ پنہاں لئے ہوئے
خا لی شکست فتح مبیں کے یقین سے
ہاں نورؔ اب کے ہمت مرداں لئے ہوئے
- کتاب : SAAZ-O-NAVA (Pg. 239)
- مطبع : Raghu Nath suhai ummid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.