مقتل سے اپنی لاش لیے ہم جو چل پڑے
مقتل سے اپنی لاش لیے ہم جو چل پڑے
سنتے ہیں قاتلوں کے بھی ماتھے پہ بل پڑے
آہیں چمک رہی تھیں فلک پر زمین کی
دنیا سمجھ رہی تھی ستارے نکل پڑے
جب تیرگی کی چیخ پڑی ان کے کان میں
مردہ پڑے چراغ بھی یک لخت جل پڑے
ساحل پہ جیوں ہی پاؤں رکھا ریگ زار نے
پانی میں جتنے دفن تھے دریا اچھل پڑے
آنکھیں رگڑ رہا ہوں زمیں پر میں مستقل
آنکھوں میں دھول جھونکنے والوں کو کل پڑے
شہبازؔ ایک شعر ہوا تھا کسی کے نام
جتنے بھی اہل درد تھے سن کر اچھل پڑے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.