مر گیا اک آدمی حکمت بڑی رکھتے ہوئے
مر گیا اک آدمی حکمت بڑی رکھتے ہوئے
سانپ کے کاٹے کی ہاتھوں میں جڑی رکھتے ہوئے
کہہ رہے ہیں ہم لب جاناں کو نازک سا گلاب
میرؔ جی کی پنکھڑی پر پنکھڑی رکھتے ہوئے
فکر میں ڈوبا ہوا بچہ نظر آیا مجھے
اک دیے کی لو پہ اپنی پھلجھڑی رکھتے ہوئے
میرے مالک میں تری فیاضیوں پر ہنس پڑا
زندگی دو دن کی دی شرطیں کڑی رکھتے ہوئے
اپنے کندھے پر بٹھائے میرے نانا بھی چلے
کچی پکی رہ گزاروں پر چھڑی رکھتے ہوئے
چل رہے ہیں اس ترقی کے زمانے میں بھی لوگ
اپنے اپنے سر پہ اپنی جھونپڑی رکھتے ہوئے
ہو گئیں مصداقؔ نم آنکھیں امیر شہر کی
تیرگی میں رہن سونے کی کڑی رکھتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.