مر ہی جاؤں جو ملے موت قرینے والی
زندگی تو مجھے لگتی نہیں جینے والی
حضرت شیخ نے پابند کیا ہے ورنہ
ایک ہی چیز مجھے لگتی ہے پینے والی
یہ مرے سارے گھرانے کے لیے کافی ہے
یہ کمائی ہے مرے خون پسینے والی
جس کسی نے بھی سنائی ہے ادھوری ہی سنائی
اک کہانی کسی مدفون خزینے والی
مجھ کو لگتا ہے کہ ماخوذ مری زیست سے ہے
ہے حکایت جو بھنور اور سفینے والی
ہو میسر جو کبھی جون میں بھی لمس ترا
ٹھنڈ پڑتی ہے دسمبر کے مہینے والی
ان کو آتی ہے سحرؔ صرف گریبان دری
انگلیاں کب ہیں مری چاک کو سینے والی
- کتاب : Word File Mail By Salim Saleem
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.