مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
ہم جان دے کے دل کو سنبھالے ہوئے تو ہیں
بے زار ہو نہ جائے کہیں زندگی سے دل
تاثیر سے خفا مرے نالے ہوئے تو ہیں
رستے ہیں اب کے سال کہ بہتے ہیں دیکھیے
پھر فصل گل میں زخم دل آلے ہوئے تو ہیں
ارماں جو یوں نہیں تو نکلتے ہیں کس طرح
یعنی ہمارے دل سے نکالے ہوئے تو ہیں
ہاں درد عشق ان پہ کرم کی نظر رہے
صبر و قرار تیرے حوالے ہوئے تو ہیں
یہ صحبتیں بھی دیکھیے لاتی ہیں رنگ کیا
مہمان خار پاؤں کے چھالے ہوئے تو ہیں
کیا جانیے کہ حشر ہو کیا صبح حشر کا
بیدار تیرے دیکھنے والے ہوئے تو ہیں
فانیؔ ترے عمل ہمہ تن جبر ہی سہی
سانچے میں اختیار کے ڈھالے ہوئے تو ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.