مرض عشق سے اچھا نہیں انساں ہوتا
مرض عشق سے اچھا نہیں انساں ہوتا
یہ وہی درد ہے جس کا نہیں درماں ہوتا
دل وحشت زدہ کیوں زلف کا خواہاں ہوتا
ایک تو تھا ہی سڑی اور پریشاں ہوتا
اے فلک کیا ہوا گر ہنس لئے دو ایک گھڑی
ہم تو جب جانتے پورا کوئی ارماں ہوتا
اور کچھ روزوں جو منت کی نہ بڑھتی بیڑی
تیرے دیوانوں سے معمور بیاباں ہوتا
یہ نہ سمجھے شب وعدہ ہے قیامت ہوگی
کیا جب آتے کہ یہاں دفن کا ساماں ہوتا
سحر ہجر جنازہ ہی نکلتا گھر سے
میں مصیبت کا نہ خوگر جو مری جاں ہوتا
ظلم کیسا ہی پس مرگ وہ کرتے لیکن
لاش ہوتی مری اور کوچۂ جاناں ہوتا
مصحف رخ میں اسی کے یہ صفت ہے واللہ
دو ورق کا بھی ہے آیا کہیں قرآں ہوتا
آج کل غیر سے ہے تجھ کو جو اے ظلم پسند
کاش وہ رشتۂ الفت ترا پیماں ہوتا
اس گرانی پہ تو مجمع ہے یہ دیوانوں کا
قہر تھا زلف کا سودا اگر ارزاں ہوتا
وار بس ایک ہی سینے پہ لگایا اے گل
اتنے چرکے تو لگاتا کہ گلستاں ہوتا
بزمؔ مداح بھی ہے آپ کا اور ذاکر بھی
رحم کیوں اس پہ نہیں اے شہ مرداں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.