مرد خوش خو نہیں تو پھر کیا ہے
مرد خوش خو نہیں تو پھر کیا ہے
پھول میں بو نہیں تو پھر کیا ہے
ہو پری رو ہزار کوئی حسین
آدمی خو نہیں تو پھر کیا ہے
کون بستا ہے کعبے کے اندر
عالم ہو نہیں تو پھر کیا ہے
وہی آنکھیں ہیں ایسی ہی وحشت
یار آہو نہیں تو پھر کیا ہے
متحیر ہیں کیوں یہ اہل نظر
ہر جگہ تو نہیں تو پھر کیا ہے
میں مسخر ہوا ان آنکھوں کا
ان میں جادو نہیں تو پھر کیا ہے
رنگ و بو دونوں گل کو لازم ہیں
رنگ ہے بو نہیں تو پھر کیا ہے
دوستوں کا بھی قتل عام کیا
تو ہلاکو نہیں تو پھر کیا ہے
تو ہے قتال دہر دل میں ترے
فیض راجو نہیں تو پھر کیا ہے
ہیں یہاں سرد مہر سب معشوق
دکن آبو نہیں تو پھر کیا ہے
دل میں فوجیں ہیں یاس و حسرت کی
اب یہ کمپو نہیں تو پھر کیا ہے
جب تلک تو ہے سو بکھیڑے ہیں
جس گھڑی تو نہیں تو پھر کیا ہے
ہو جو دشمن وہ دوست بن جائے
خلق جادو نہیں تو پھر کیا ہے
خواب میں دیکھتا ہوں میں کالے
یاد گیسو نہیں تو پھر کیا ہے
چرخ پر چڑھ کے بن گیا مہ نو
تیرا ابرو نہیں تو پھر کیا ہے
جس کے کہنے میں دل ہو وہ ہی دلیر
اس پہ قابو نہیں تو پھر کیا ہے
مردہ دل سن کے جی اٹھے اکبرؔ
شعر جادو نہیں تو پھر کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.