مسافت زندگی اور حادثوں میں اتنی مبہم ہے
دلچسپ معلومات
(طرحی مشاعرہ1953 کاغذی گوڑہ)
مسافت زندگی اور حادثوں میں اتنی مبہم ہے
خوشی کہتے ہیں جس کو اک ذرا سا وقفۂ غم ہے
بہار حسن پنہاں ہے جنوں تحریک عالم ہے
جہاں ہم ہیں وہاں گنجائش فکر و نظر کم ہے
نگاہ وقت میں دونوں بھی شانیں پائی جاتی ہیں
کہیں زخم جگر ہے اور کہیں زخموں کا مرہم ہے
مذاق عام سے کیا مطمئن ہوں گے نظر والے
شعور شادمانی تک نہیں ہے غم تو پھر غم ہے
مچاتے ہیں تباہی پہلے پھر تسکین دیتے ہیں
مسلسل ہم پہ احساں گلستاں والوں کا کیا کم ہے
وہی دل کا لہو ہے اشک کہیے یا ہنسی کہیے
بھڑک اٹھے تو شعلہ نرم پڑ جائے تو شبنم ہے
بہ قید ہوش تو وہ ہیں رگ جاں کے قریں لیکن
طلب حد جنوں میں ہو تو یہ بھی فاصلہ کم ہے
چھپا لیتی ہے خوش پوشی بھی کیا کیا زخم دامن میں
صدائے خندۂ گل ایک فریاد منظم ہے
مزاج دہر کیا ان کی نظر کو دیکھ کر چپ ہوں
مجھے معلوم ہے حالات میں جتنا بھی دم خم ہے
پیام دوست سننے گوش بر آواز رہتا ہوں
دھڑکتا دل نہیں پہلو میں جیتا جاگتا غم ہے
وہ کیسے لوگ ہیں یا رب جو مر کر بھی نہیں مرتے
یہاں تو زندگی میں زندگی کا شائبہ کم ہے
عجب عالم ہے شوقؔ احساس غم کی پاسداری کا
بظاہر خشک ہیں آنکھیں مگر دامان دل نم ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.