مسرت میں بھی ہے پنہاں الم یوں بھی ہے اور یوں بھی
مسرت میں بھی ہے پنہاں الم یوں بھی ہے اور یوں بھی
سرود زندگی میں زیر و بم یوں بھی ہے اور یوں بھی
غموں سے ہے گریباں میں اطاعت کا گلا کیوں ہو
دو گونہ بار ہے سر پر وہ خم یوں بھی ہے اور یوں بھی
طریق خسروی بھی ہے کنایہ ہے کہ مہ ہم ہیں
انہیں زیبا ہے ہم کہنا یہ ہم یوں بھی ہے اور یوں بھی
کمر کی جستجو سے کیا دہن کی آرزو کیوں ہو
محبت کے مراحل میں عدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
لگی ہیں موت پر آنکھیں مگر ہے دید کی حسرت
یہ وقت نزع ہے آنکھوں میں دم یوں بھی ہے اور یوں بھی
قسم کھائی ہے الفت کی خدا رکھے اسے قائم
پھنسی ہے جان مشکل میں قسم یوں بھی ہے اور یوں بھی
تری دریا دلی ساقی ہماری تشنہ کامی سے
خجل کیسے نہ ہو مینا میں کم یوں بھی ہے اور یوں بھی
حسیں جیسے کوئی مورت ہو دل رکھتا ہے پتھر کا
وہ کافر کیوں برا مانے صنم یوں بھی ہے اور یوں بھی
مسرت میں دل حرماں زدہ کو خوف ہے غم کا
نہیں ممکن مفر غم سے کہ غم یوں بھی ہے اور یوں بھی
کریں مشق تغافل یا جفائیں آپ فرمائیں
یہاں تسلیم کی خو سے کرم یوں بھی ہے اور یوں بھی
ندامت ہے جفاؤں پر شکایت پر عتاب ان کو
جبیں کا حال کیا کہئے کہ نم یوں بھی ہے اور یوں بھی
مغاں سے اس کو الفت ہے عیاں چہرہ سے وحشت ہے
کوئی خادم سے کیا پوچھے عجم یوں بھی ہے اور یوں بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.