مستی گام بھی تھی غفلت انجام کے ساتھ
مستی گام بھی تھی غفلت انجام کے ساتھ
دو گھڑی کھیل لیے گردش ایام کے ساتھ
تشنہ لب رہنے پہ بھی ساکھ تو تھی شان تو تھی
وضع رندانہ گئی اک طلب جام کے ساتھ
جب سے ہنگام سفر اشکوں کے تارے چمکے
تلخیاں ہو گئیں وابستہ ہر اک شام کے ساتھ
اب نہ وہ شورش رفتار نہ وہ جوش جنوں
ہم کہاں پھنس گئے یاران سبک گام کے ساتھ
اڑ چکی ہیں ستم آراؤں کی نیندیں اکثر
آپ سنئے کبھی افسانہ یہ آرام کے ساتھ
اس میں ساقی کا بھی درپردہ اشارہ تو نہیں
آج کچھ رند بھی تھے واعظ بدنام کے ساتھ
غیر کی طرح ملے اہل حرم اے زیدیؔ
مجھ کو یک گو نہ عقیدت جو تھی اصنام کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.