مت پوچھئے کیا جیتنے نکلا تھا میں گھر سے
مت پوچھئے کیا جیتنے نکلا تھا میں گھر سے
مت پوچھئے کیا ہار کے لوٹا ہوں سفر سے
کچھ میں بھی گراں گوش تھا سن ہی نہیں پایا
کچھ وقت بھی گزرا ہے دبے پاؤں ادھر سے
کل رات بھی تھا چودھویں کا چاند فلک پر
کل رات بھی اک قافلہ نکلا تھا کھنڈر سے
اک ابر کا ٹکڑا ہے پرندہ ہے کہ تو ہے
یہ کون ہے جو روز گزرتا ہے ادھر سے
کیا جانے مجھے تخت سلیماں کہاں لے جائے
جھپکی ہی نہیں آنکھ مری خواب کے ڈر سے
دیکھا تو کسی آنکھ میں حیرت بھی نہیں تھی
خالی تھا مرا کھیل بھی ہر کیف و اثر سے
سورج کے تعاقب میں ہوا وہ بھی تہہ آب
اک شخص ضیاؔ ساتھ تھا ہنگام سحر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.