متاع صحن چمن پھر لہو لہو کیا ہے
متاع صحن چمن پھر لہو لہو کیا ہے
اگر یہی ہے تو معیار رنگ و بو کیا ہے
جنوں کو باد بہاری سے ہے نمو درکار
رفوگروں سے کہو عجلت رفو کیا ہے
خدا گواہ بجز اس کے آرزو کیا تھی
کہ تم نے پوچھ لیا ہے کہ آرزو کیا ہے
ادھر ہیں آنکھوں میں آنسو ادھر جبیں پہ شکن
یہ کون جانے کہ موضوع گفتگو کیا ہے
ہے ظلمتوں سے اجالوں کی عظمتوں کا بھرم
نہیں تو دن میں چراغوں کی آبرو کیا ہے
ہزار جانیں تری خوبیٔ ستم پہ نثار
تجھے کمال مبارک مرا لہو کیا ہے
گلہ بھی ہو تو زباں پر نہ آئے اے افضلؔ
کسی گلے کا محل ان کے روبرو کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.