موج گل موج صبا موج سحر لگتی ہے
موج گل موج صبا موج سحر لگتی ہے
سر سے پا تک وہ سماں ہے کہ نظر لگتی ہے
ہم نے ہر گام پہ سجدوں کے جلائے ہیں چراغ
اب ہمیں تیری گلی راہ گزر لگتی ہے
لمحے لمحے میں بسی ہے تری یادوں کی مہک
آج کی رات تو خوشبو کا سفر لگتی ہے
جل گیا اپنا نشیمن تو کوئی بات نہیں
دیکھنا یہ ہے کہ اب آگ کدھر لگتی ہے
ساری دنیا میں غریبوں کا لہو بہتا ہے
ہر زمیں مجھ کو مرے خون سے تر لگتی ہے
کوئی آسودہ نہیں اہل سیاست کے سوا
یہ صدی دشمن ارباب ہنر لگتی ہے
واقعہ شہر میں کل تو کوئی ایسا نہ ہوا
یہ تو اخبار کے دفتر کی خبر لگتی ہے
لکھنؤ کیا تری گلیوں کا مقدر تھا یہی
ہر گلی آج تری خاک بسر لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.