موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے
موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے
تنہائی کو گیت میں ڈھالیں گے گیتوں کو گائیں گے
کندھے ٹوٹ رہے ہیں صحرا کی یہ وسعت بھاری ہے
گھر جائیں تو اپنی نظر میں اور سبک ہو جائیں گے
پرچھائیں کے اس جنگل میں کیا کوئی موجود نہیں
اس دشت تنہائی سے کب لوگ رہائی پائیں گے
زمزم اور گنگا جل پی کر کون بچا ہے مرنے سے
ہم تو آنسو کا یہ امرت پی کے امر ہو جائیں گے
جس بستی میں سب واقف ہوں وہ بستی اک زنداں ہے
وحشت کی فصل آئے گی تو ہم کتنا گھبرائیں گے
آج جو اس بے دردی سے ہنستا ہے ہماری وحشت پر
اک دن ہم اس شہر کو راہیؔ رہ رہ کر یاد آئیں گے
- کتاب : ajnabi-shahr-ajnabi-raaste(rekhta website) (Pg. 228)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.