موج سراب خواب تماشا خیال رکھ
موج سراب خواب تماشا خیال رکھ
ظالم فریب کار ہے دنیا خیال رکھ
آزادیوں کا ذکر نہ کر میرے سامنے
اے حکم کے غلام تو اپنا خیال رکھ
ترتیب تال میل سے بنتی ہے شاعری
لفظوں کے انتخاب کا تھوڑا خیال رکھ
اس کے فسوں سے کوئی بھی بچنے نہ پائے گا
بدلا ہے پھر سے وقت نے چہرہ خیال رکھ
تجھ کو نہ راس آئے گا یہ دھوپ کا نگر
دشمن بنے گا اپنا ہی سایہ خیال رکھ
آنکھوں میں آ گیا ہے جو دریا لیے ہوئے
دامن میں بھر کے لائے گا صحرا خیال رکھ
اس خطۂ زمین پہ تا عمر سرفرازؔ
بہتا رہے گا خون کا دریا خیال رکھ
اس کی تو خاص بات یہی ہے کہ آخرش
ساگرؔ وہ شخص دیتا ہے دھوکہ خیال رکھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.