موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے
موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے
مجھ سے آگے مرا طوفان کہاں جاتا ہے
چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھی
یوں چلے جانے سے مہمان کہاں جاتا ہے
میں تو جاتا ہوں بیابان نظر کے اس پار
میرے ہمراہ بیابان کہاں جاتا ہے
بات یونہی تو نہیں کرتا ہوں میں رک رک کر
کیا بتاؤں کہ مرا دھیان کہاں جاتا ہے
گھر بدلنا تو بہانہ ہے بہانہ کر کے
اندر اندر ہی سے انسان کہاں جاتا ہے
داستاں گو کی نشانی کوئی رکھی ہے کہ وہ
داستاں گوئی کے دوران کہاں جاتا ہے
اب تو دریا میں بندھے بیٹھے ہیں دریا کی طرح
اب کناروں کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 21.07.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.